مدارس عربیہ کا آغاز معلم کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے اصحاب صفہؓ کی شکل میں ہوا۔ جہاں حکام وعوام، کالے گورے، عرب و عجم اور آزاد و غلام بغیر کسی امتیاز واختصاص کے اپنی علمی پیاس بجھاتے ۔ چنانچہ اس عہدزریں سے لے کر آج تک یہ مدارس جہاں علم ومعرفت کے ذریعے انسانیت کی راہنمائی کرتے چلے آرہے ہیں وہاں ہر زمانے میں باطل کا نظریاتی اور تہذیبی مقابلہ بھی کررہے ہیں۔ اور مسلمانوں کے عقائد وافکار ، معاشرت اور اسلامی علوم وفنون کی حفاظت کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
بقول مفکر اسلام مولانا ابوالحسن ندوی ؒ کہ ’’ مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے جہاں دین کے داعی تیار ہوتے ہیں ، وہ کارخانے ہیں جہاں قلب ونگاہ اور دماغ ڈھلتے ہیں، انسانی زندگی کی نگرانی ہوتی ہے‘‘۔ مدرسہ کا تعلق کسی تقویم، تمدن، کسی عہد ، کلچر اور زبان وادب سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق براہ راست نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے جو عالمگیر اور زندہ و جاوید ہے‘‘۔
حضورؐ نے ان تربیتی اداروں میں جہاں قرآن وسنت اور فقہ پڑھنے کا فرمایا وہاں پر علم ریاضی، علم طب، علم لغات اور علم انساب سیکھنے کا بھی حکم دیا۔ تیراکی اور تیراندازی سیکھنے پر بھی زور دیا۔ حضرت زیدؓ بن ثابت نے آپؐ کے حکم سے فارسی ، سریانی اور حبشی زبان سیکھی۔اگر امت مسلمہ کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو وہ دو طبقوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ ان میں سے ایک طبقے نے اپنا وزن انگریز کے پلڑے میں ڈال دیا تھا جبکہ دوسرے طبقے نے اپنے آپ کو دینی علوم تک محدود کرلیا تھا جس کے نتیجے میں قدیم وجدید کی بحث چھڑ گئی اور دونوں طبقوں میں شدید قسم کا افتراق و انتشارپیدا ہوا۔
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قوم کے ہمدرد اور مخلص علماء کرام میدان میں آئے چنانچہ 1893 ء میں مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی نے مسلمانوں کے درمیان مسلکی ہم آہنگی ، قدیم وجدید کی خودساختہ کشمکش اور اختلافات کی خلیج کو کم کرنے کیلئے مختلف مکاتب فکر کے علماء کو کانپور (انڈیا) میں اکٹھا کیا اور ندوۃ العلماء کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا۔
آج پھر امت مسلمہ اسی طبقاتی کشمکش کا شکار ہے، مسلمان مکاتب فکر کے درمیان تناؤ کی ایک فضاء قائم ہے۔ چنانچہ ان نامساعد حالات میںعلوم نبویہ کی بہتر انداز میں ترویج اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے کے لیے 1982ء میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان میں ملک کے ممتاز علماء کرام کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمداللہ جان صاحب دامت برکاتہم ، شیخ القرآن والحدیث مولانا علی اکبر جان دامت برکاتہم چارسدہ، شیخ القرآن والحدیث مولانا عبدالرازق صاحب زید مجدہم مردان اور حضرت مولانا شیخ الحدیث امیر سید صاحب زید مجدہم شریک ہوئے اور اتحادالمدارس العربیہ پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔ تاکہ ملک کے مختلف مکاتب فکر کے چھوٹے بڑے مدارس کو ندوۃ العلماء کے طرز پر ایک مرکز فراہم کیا جائے۔ اور دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترویج واشاعت کا کام بہتر انداز میں کیا جاسکے علاوہ ازیں دینی اور عصری علوم کو ایک دوسرے کے اتنا قریب لایا جائے کہ وہ اپنا اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرسکیں اور وسعت فکر و نظر پیدا ہوسکے۔
آنحضر ت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’بلغوا عنی ولو آیۃ‘‘ کہ تمہیں قرآن وسنت کی جو امانت سپرد کی جارہی ہے۔ اس میں سے ایک بات بھی معلوم ہو تو بلا امتیاز فوراً دوسروں تک پہنچاؤ ۔ اسی لئے اربابِ اتحاد نے دینی مدارس کے طلباء کے علاوہ ملک کے دیگر عصری اداروں کے طلباء کو دینی علوم سے آشنا کرنے کیلئے قواعد و ضوابط کے مطابق امتحانات میں شرکت کی اجازت دی ہے۔ تاکہ نئی نسل کی فکری، علمی اورذ ہنی آبیاری کی جاسکے اس سلسلے میں بہت جلد نئے کورسز متعارف کرائے جارہے ہیں۔ اتحاد المدارس کے قیام کے پیش نظر ایک بات یہ بھی تھی کہ د ینی مدارس کے طلباء کو عصر حاضر کے جدید علوم سے آراستہ کیا جائے لیکن ایک بات ذہن نشین رہے۔ کہ عصری علوم کی تعلیم سے مراد اْن علوم کا تعارفی مطالعہ، اہم اصلاحات سے واقفیت اور مفید مباحث سے آگاہی ہے تاکہ دعوت وتبلیغ اور اشاعت علم بہتر انداز میں ہوسکے۔طلباء میں غور و فکر کا مادہ پیدا ہو اور انہیں دور جدید کے تقاضوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
آپ حضرات کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ عصری علوم ابتدا ہی سے درس نظامی میں شامل ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ آج کے نہیں بلکہ دو صدی قبل کے ہیں جیسے علم منطق، فلسفہ اور علم ہیئت کہ ان کو دینی علوم نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ علوم آلیہ ہیں چنانچہ اسی تناظر میں فلسفۂ جدیدہ یعنی سائنس اور انگریزی کو دیکھا جائے کہ ان کے پڑھنے سے طالب علم درس وتدریس ، امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ جدید وسائل علم کو بروئے کار لاکر اشاعت دین کا کام بہتر طور پر کرسکے گا۔ اس لئے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے انگریز کے ابتدائی دور میں فرمایا تھا ’’جاؤ انگریزی پڑھو اور سیکھو‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام آفاقی مذہب ہونے کے ناطے اجنبی زبانوں کے سیکھنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادہے ’’وماارسلنا من رسول الابلسان قومہ‘‘ یعنی ہم نے ہر رسول کو اس کی قومی زبان میں بھیجا معلوم ہوا کہ قرآن وسنت کا پیغام پہنچانے والے کو اس قوم کی زبان وادب سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔فقہ کی تدریس کا حق اس وقت ہی ادا ہوسکتا ہے۔ جب آپ فقہی مسائل کا ملکی اور بین الاقوامی مسائل کے ساتھ تقابلی انداز اپنائیںگے اور اسلامی قوانین کی ابدیت ، افادیت اور آفاقیت کو ثابت کرسکیںگے۔ حضرات فقہاء کرام کا قول ہے۔ ’’من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل‘‘ کہ جو اپنے زمانے کے معاملات سے واقف نہ ہو وہ عالم نہیں جاہل ہے چنانچہ امام محمدؒ اپنے زمانے کے تجارتی لین دین اور طور طریقوں سے باخبر رہنے کیلئے تاجروں کے ساتھ مستقل ملاقات کرتے تھے۔
ایک اور اہم چیز جس کے بارے میں انتہائی غفلت برتی جارہی ہے وہ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا ، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے میدان میں علماء کرام کا انتہائی محدود کردار ہے۔ چنانچہ آج تمام ذرائع ابلاغ غیروں کے قبضے میں ہیں جس سے ہماری نوجوان نسل میں فکری ارتداد کا اندیشہ ہے۔
آخر میں مدارس دینیہ کے اربابِ حل وعقد سے بصد احترام التماس ہے کہ وہ اپنے اداروں میں جدید عربی ،ریاضی اور انگریزی کو ضرور شامل نصاب کریں کیونکہ کوئی بھی نصاب تعلیم حرف آخر نہیں ہوتا اگر اس میں زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کو سامنے نہ رکھا جائے تو بعض اوقات وہ نصاب قوم کی پسماندگی کا سبب بن سکتا ہے ایک اچھا نصاب وہ ہوگا جس میں حقیقی اسلامی علوم اور عصری ضروریات کو مدنظر رکھا جائے وہ نصاب نظریاتی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے جدید تقاضے بھی پورے کرتا ہو اور نئے دور کے چیلنج کا سامنا بھی کرسکتا ہو اس سلسلے میں اتحاد المدارس العربیہ پاکستان ایک جامع نصاب تعلیم تشکیل دے چکا ہے۔ جسے ان شاء اللہ بہت جلد علماء کرام کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔